Ibn-e-Insha Ghazal | شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی یا ہمیں کو خبر نہیں ہوتی ہم نے سب دُکھ جہاں کے دیکھے ہیں بے کلی اِس قدر نہیں ہوتی نالہ یوں نا رسا نہیں رہتا آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی چاند ہے ____ کہکشاں ہے ____ تارے ہیں کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی ایک جاں سوز و نامراد خلش اِس طرف ہے ____ اُدھر نہیں ہوتی دوستو ____ عشق ہے خطا لیکن کیا خطا درگزر نہیں ہوتی رات آکر گزر بھی جاتی ہے اِک ہماری سحر نہیں ہوتی بے قراری سہی نہیں جاتی زندگی مختصر نہیں ہوتی ایک دن دیکھنے کو آجاتے یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی حُسن سب کو خدا نہیں دیتا ہر کسی کی نظر نہیں ہوتی دل پیالہ نہیں گدائی کا عاشقی در بہ در نہیں ہوتی ____ ابنِ انشا
قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لئے اب یہی ترکِ تعلق کے بہانے مانگے اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے لٹ بھی چکے اور محبت وہی انداز پرانے مانگے زندگی ہم ترے داغوں سے رہے شرمندہ اور تُو ہے کہ سدا آئینہ خانے مانگے دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جانِ فرازؔؔ مِل گئے تم بھی تو کیا اور نہ جانے مانگے